Thursday 17 September 2015

عشق کچھ ایسی گدائی ہے کہ سبحان اللہ

عشق کچھ ایسی گدائی ہے کہ سبحان اللہ
ہم نے خیرات وہ پائی ہے کہ سبحان اللہ
پاؤں پڑتا ہوں تو وہ ہنس کے لگاتا ہے گلے
بندگی میں وہ خدائی ہے کہ سبحان اللہ
شام ہوتے ہی کسی بھولے ہوئے غم کی مہک
صحن میں یوں اتر آئی ہے کہ سبحان اللہ
آنکھ اٹھا کر میں ترے عارض و لب کیا دیکھوں
پاؤں ہی ایسا حنائی ہے کہ سبحان اللہ
چہرے پڑھتا ہوں، کتابیں نہیں پڑھتا اب میں
یہ پڑھائی، وہ پڑھائی ہے کہ سبحان اللہ
پا بہ گِل ہوں مگر اڑتا ہوں میں خوشبو بن کر
قید میں ایسی رہائی ہے کہ سبحان اللہ 
اک گلِ تر سے ٹپکتی ہوئی شبنم نے مجھے
آنکھ وہ یاد دلائی ہے کہ سبحان اللہ
چھونے والا بھی مہکتا ہی چلا جاتا ہے 
ایسی کلیوں سی کلائی ہے کہ سبحان اللہ
سب کی آنکھوں سے بچا کر کسی شرمیلے نے
ہم سے یوں آنکھ ملائی ہے کہ سبحان اللہ 
دل چراتا ہے وہ کم بخت بِنا آہٹ کے
ہاتھ میں ایسی صفائی ہے کہ سبحان اللہ
آج اِک شوخ نے صاحب! مجھے میری ہی غزل
ایسے شرما کے سنائی ہے کہ سبحان اللہ
ہنستے گاتے ہوئے فارسؔ کی اداس آنکھوں میں
ایسی خاموش دُہائی ہے کہ سبحان اللہ

رحمان فارس

No comments:

Post a Comment