عشق کچھ ایسی گدائی ہے کہ سبحان اللہ
ہم نے خیرات وہ پائی ہے کہ سبحان اللہ
پاؤں پڑتا ہوں تو وہ ہنس کے لگاتا ہے گلے
بندگی میں وہ خدائی ہے کہ سبحان اللہ
شام ہوتے ہی کسی بھولے ہوئے غم کی مہک
آنکھ اٹھا کر میں ترے عارض و لب کیا دیکھوں
پاؤں ہی ایسا حنائی ہے کہ سبحان اللہ
چہرے پڑھتا ہوں، کتابیں نہیں پڑھتا اب میں
یہ پڑھائی، وہ پڑھائی ہے کہ سبحان اللہ
پا بہ گِل ہوں مگر اڑتا ہوں میں خوشبو بن کر
قید میں ایسی رہائی ہے کہ سبحان اللہ
اک گلِ تر سے ٹپکتی ہوئی شبنم نے مجھے
آنکھ وہ یاد دلائی ہے کہ سبحان اللہ
چھونے والا بھی مہکتا ہی چلا جاتا ہے
ایسی کلیوں سی کلائی ہے کہ سبحان اللہ
سب کی آنکھوں سے بچا کر کسی شرمیلے نے
ہم سے یوں آنکھ ملائی ہے کہ سبحان اللہ
دل چراتا ہے وہ کم بخت بِنا آہٹ کے
ہاتھ میں ایسی صفائی ہے کہ سبحان اللہ
آج اِک شوخ نے صاحب! مجھے میری ہی غزل
ایسے شرما کے سنائی ہے کہ سبحان اللہ
ہنستے گاتے ہوئے فارسؔ کی اداس آنکھوں میں
ایسی خاموش دُہائی ہے کہ سبحان اللہ
رحمان فارس
No comments:
Post a Comment