Tuesday 15 September 2015

جہاں غم ملا اٹھایا پھر اسے غزل میں ڈھالا

جہاں غم ملا اٹھایا پھر اسے غزل میں ڈھالا
یہی درد سر خریدا، یہی روگ ہم نے پالا
تیرے ہاتھ سے ملی ہے مجھے آنسوؤں کی مالا
تِری زلف ہو دوگونہ، تِرا حسن ہو دوبالا
میں ہرے بھرے چمن میں وہ شکستہ شاخِ گُل ہوں
نہ خزاں نے جس کو تھاما، نہ بہار نے سنبھالا
مِرے غم کی قدرو قیمت کوئی میرے دل سے پوچھے
یہ چراغ وہ ہے جس سے مِرے گھر میں ہے اجالا
جہاں حسن و عشق ہوں گے، یہی دھوپ چھاؤں ہو گی
کبھی تیری بات اونچی، کبھی میرا بول بالا
تجھے انجمن مبارک، مجھے فکر و فن مبارک
یہی میرا تختِ زریں، یہی میری مرگ چھالا

کلیم عاجز

No comments:

Post a Comment