Tuesday 15 September 2015

ہر چوٹ پہ پوچھے ہے بتا یاد رہے گی

“ہر چوٹ پہ پوچھے ہے ”بتا یاد رہے گی
ہم کو یہ زمانے کی ادا یاد رہے گی
دن رات کے آنسو، سحر و شام کی آہیں
اس باغ کی یہ آب و ہوا یاد رہے گی
کس دھوم سے بڑھتی ہوئی پہونچی ہے کہاں تک
دنیا کو تِری زلفِ رسا یاد رہے گی
کرتے رہیں گے تم سے محبت بھی وفا بھی
گو تم کو محبت نہ وفا یاد رہے گی
کس بات کو تُو قول و قسم لے ہے برہمن
ہر بات بتوں کی بخدا یاد رہے گی
چلتے گئے ہم، پھول بناتے گئے چھالے
صحرا کو میری لغزشِ پا یاد رہے گی
جس بزم میں تم جاؤ گے اس بزم میں عاجزؔ
یہ گفتگوئے بے سر و پا یاد رہے گی

کلیم عاجز

No comments:

Post a Comment