Tuesday, 15 September 2015

وہ ستم نہ ڈھائے تو کیا کرے اسے کیا خبر کہ وفا ہے کیا

وہ سِتم نہ ڈھائے تو کیا کرے اسے کیا خبر کہ وفا ہے کیا
تُو اسی کو پیار کرے ہے کیوں، یہ کلیمؔ تجھ کو ہُوا ہے کیا
تجھے سنگدل یہ پتہ ہے کیا کہ دُکھے دلوں کی صدا ہے کیا
کبھی چوٹ تُو نے بھی کھائی ہے، کبھی تیرا دل بھی دُکھا ہے کیا
تُو رئیسِ شہرِ سِتم گراں، میں گدائے کُوچۂ عاشقاں
تُو امیر ہے، تو بتا مجھے میں غریب ہوں تو بُرا ہے کیا
تُو جفا میں مست ہے روز و شب، میں کفن بدوش غزل بلب
ترے رُعبِ حُسن سے چُپ ہیں سب، میں بھی چُپ رہوں تو مزا ہے کیا
یہ کہاں سے آئی ہے سُرخ رو، ہے ہر ایک جھونکا لہُو لہُو
کٹی جس میں گردنِ آرزُو، یہ اسی چمن کی ہوا ہے کیا
ابھی تیرا دورِ شباب ہے، ابھی کیا حساب و کتاب ہے
ابھی کیا نہ ہو گا جہان میں، ابھی اس جہاں میں ہُوا ہے کیا
یہی ہمنوا، یہی ہم سخن، یہی ہم نشاں، یہی ہم وطن
میری شاعری ہی بتائے گی، میرا نام کیا ہے پتہ ہے کیا

کلیم عاجز

No comments:

Post a Comment