Thursday 17 September 2015

صدائیں دیتے ہوئے اور خاک اڑاتے ہوئے

صدائیں دیتے ہوئے اور خاک اڑاتے ہوئے
میں اپنے آپ سے گزرا ہوں تجھ تک آتے ہوئے
پهر اس کے بعد زمانے نے مجھ کو روند دیا
میں گر پڑا تھا میں کسی اور کو اٹھاتے ہوئے
کہانی ختم ہوئی، اور ایسی ختم ہوئی
کہ لوگ رونے لگے تالیاں بجاتے ہوئے
پھر اس کے بعد عطا ہو گئی مجھے تاثیر
میں رو پڑا تھا کسی کو غزل سناتے ہوئے
کریدنا ہے تو دل کو کرید لے فوراً
کھلونے ٹوٹ بھی جاتے ہیں آزماتے ہوئے
تمہارا غم بھی کسی طفلِ شِیر خوار سا ہے
کہ اونگھ جاتا ہوں میں خود اسے سلاتے ہوئے
اگر ملے بھی تو ملتا ہے راہ میں فارسؔ
کہیں سے آتے ہوئے یا کہیں کو جاتے ہوئے

رحمان فارس

No comments:

Post a Comment