صدائیں دیتے ہوئے اور خاک اڑاتے ہوئے
میں اپنے آپ سے گزرا ہوں تجھ تک آتے ہوئے
پهر اس کے بعد زمانے نے مجھ کو روند دیا
میں گر پڑا تھا میں کسی اور کو اٹھاتے ہوئے
کہانی ختم ہوئی، اور ایسی ختم ہوئی
پھر اس کے بعد عطا ہو گئی مجھے تاثیر
میں رو پڑا تھا کسی کو غزل سناتے ہوئے
کریدنا ہے تو دل کو کرید لے فوراً
کھلونے ٹوٹ بھی جاتے ہیں آزماتے ہوئے
تمہارا غم بھی کسی طفلِ شِیر خوار سا ہے
کہ اونگھ جاتا ہوں میں خود اسے سلاتے ہوئے
اگر ملے بھی تو ملتا ہے راہ میں فارسؔ
کہیں سے آتے ہوئے یا کہیں کو جاتے ہوئے
رحمان فارس
No comments:
Post a Comment