موت کے بعد بھی اب لوگوں نے کچھ دن مرنا ہوتا ہے
سوئم، دسواں اور چہلم کا خرچہ کرنا ہوتا ہے
بھوکے ننگے لوگ یہاں پر کفن بھی چوری کرتے ہیں
اس ڈر سے اب قبروں کو بھی پکا کرنا ہوتا ہے
کہتے ہیں محبوبہ اپنے یار کی قبر پہ آتی ہے
اوڑھ گلاب کی چادر ہم نے روز سنورنا ہوتا ہے
موت کے بعد ہمارے جسم سے نفس کی بدبو آتی ہے
لاکھ لوبان کا پردہ ڈالیں، راز نکلنا ہوتا ہے
چاہے خون سے سینچو مٹی، لاکھ بچاؤ آندھی سے
گلشن میں جو کھلتا ہے، وہ پھول بکھرنا ہوتا ہے
سوئم، دسواں اور چہلم کا خرچہ کرنا ہوتا ہے
بھوکے ننگے لوگ یہاں پر کفن بھی چوری کرتے ہیں
اس ڈر سے اب قبروں کو بھی پکا کرنا ہوتا ہے
کہتے ہیں محبوبہ اپنے یار کی قبر پہ آتی ہے
اوڑھ گلاب کی چادر ہم نے روز سنورنا ہوتا ہے
موت کے بعد ہمارے جسم سے نفس کی بدبو آتی ہے
لاکھ لوبان کا پردہ ڈالیں، راز نکلنا ہوتا ہے
چاہے خون سے سینچو مٹی، لاکھ بچاؤ آندھی سے
گلشن میں جو کھلتا ہے، وہ پھول بکھرنا ہوتا ہے
رضا نقوی
No comments:
Post a Comment