Friday 11 September 2015

اس کے بعد اور ابھی سخت مقام آئے گا

اس کے بعد اور ابھی سخت مقام آئے گا
حوصلہ یوں نہ گنوا، یہ تِرے کام آئے گا
اتنا مایوس نہ ہو گردشِ افلاک سے تُو
صبح نکلا جو ستارہ، سرِ شام آئے گا
میں تِری یاد کے زنداں میں ابھی تک ہوں اسیر
کب تُو آزاد کرانے یہ غلام آئے گا
اور کچھ دن جو یہی خوف کا عالم ہے تو پھر
نہ دعائیں کوئی دے گا، نہ سلام آئے گا
کتنی مفلس ہوئی جاتی ہے یہ دنیا پھر بھی
سوچتی ہے کہ کوئی اور نظام آئے گا
راستے اہلِ مسافت سے کہاں خالی ہیں
تھک گئے ہم تو کوئی تازہ خرام آئے گا
میں تو اک جہدِ مسلسل ہوں، محبت ہوں سلیمؔ
زندہ لوگوں میں ہمیشہ مِرا نام آئے گا

سلیم کوثر

No comments:

Post a Comment