Friday 11 September 2015

دکھائی کچھ نہیں دیتا نگاہ ہوتے ہوئے

دکھائی کچھ نہیں دیتا نگاہ ہوتے ہوئے
بچا ہوا ہے وہ قاتل، گواہ ہوتے ہوئے
اب اس سے بڑھ کے محبت کا قحط کیا ہو گا
سب اجنبی ہیں یہاں رسم راہ ہوتے ہوئے
مجھے اجالے کا لالچ دیا گیا اور پھر
میں دیکھتا رہا دن کو سیاہ ہوتے ہوئے
کبھی کبھی تو اندھیرا عجیب لگتا ہے
ہزار سلسلۂ مہر و ماہ ہوتے ہوئے
ازل سے لوگ مساوات چاہتے ہیں یہاں
غلام ہوتے ہوئے، بادشاہ ہوتے ہوئے
کوئی سحر ہو انہیں کے لہو سے پھوٹتی ہے
جو لوگ مارے گئے بے گناہ ہوتے ہوئے
سلیمؔ سارے گلی کوچے یاد ہیں، پھر بھی
بھٹک گئے تِرے گِرد و نواح ہوتے ہوئے

سلیم کوثر

No comments:

Post a Comment