Friday 11 September 2015

بہت دنوں میں کہیں ہجرِ ماہ و سال کے بعد

بہت دنوں میں کہیں ہجرِ ماہ و سال کے بعد
رُکا ہوا ہے زمانہ تِرے وصال کے بعد
کسی نے پھر ہمیں تسخیر کر لیا آخر
کوئی مثال تو آئی تِری مثال کے بعد
عجیب حبس کے عالم میں چل رہی تھی ہوا
تِرے جواب سے پہلے، مِرے سوال کے بعد
ہمیں جو چپ دھندلکوں سے جھانکتی تھی بہت
وہ آنکھیں دیکھنے والی ہیں عرضِ حال کے بعد
ہم اہلِ خواب کی مجبوریاں سمجھتے ہیں
سو ہم نے کچھ نہیں سوچا تِرے خیال کے بعد
سلیمؔ ہم نے اک ایسا بھی دن گزارا ہے
کہ جیسے شام کا منظر ہو کہیں زوال کے بعد

سلیم کوثر

No comments:

Post a Comment