Friday, 11 September 2015

اگرچہ پیکر حسن وفا تھا وہ بھی گیا

اگرچہ پیکرِ حسنِ وفا تھا، وہ بھی گیا
میرا شریکِ غزل اک دِیا تھا، وہ بھی گیا
امیدِ وصل تو بے چین مہماں تھی، گئی
مکینِ دل میرا حوصلہ تھا، وہ بھی گیا
چمکتے شہر میں آئے تھے قُمقُموں کے لیے
اور اک چراغ کہ ماں نے دیا تھا، وہ بھی گیا
پھر آج چاند کہیں چھپ گیا، مگر اب کے
وہ چاند میں جو کوئی چاند سا تھا، وہ بھی گیا
وہی ہوا، کہ چرائے ہوئے گلاب کے ساتھ
جو اپنے ہاتھ میں تنکہ اگا تھا، وہ بھی گیا
جمالِ یار کے خیر اپنے مسئلے ہوں گے
خیالِ یار تو کچھ بے ریا تھا، وہ بھی گیا
لہو کا ایک ہی قطرہ تھا دل میں، جو اسلمؔ
کسی کے لطف سے آنسو بنا تھا، وہ بھی گیا

اسلم کولسری

No comments:

Post a Comment