Friday 11 September 2015

خیال خام تھا یا نقش معتبر نہ کھلا

خیالِ خام تھا یا نقشِ معتبر، نہ کھُلا
دلوں پہ اس کا تبسم کھُلا، مگر نہ کھلا
محیط چشمِ تمنا بھی تھا وہی، جس پر
کسی طرح بھی مِرا نقطۂ نظر نہ کھلا
عجیب وضع سے بے اعتباریاں پھیلیں
غریبِ شہر کی دستک پہ کوئی در نہ کھلا
نہیں کہ خندۂ مفلس ہے بابِ شنوائی
کبھی کھلے گا، اگر مُدعی کا سر نہ کھلا
قدم قبول ہوئے، راستوں کی دھول ہوئے
سفر تمام ہوا، مقصدِ سفر نہ کھلا
بڑی طویل کہانی ہے دل کے بجھنے کی
کہ ایک شخص تھا اور قصہ مختصر، نہ کھلا
متاعِ شب تھے، سو اسلمؔ فگار آنکھوں کے
چراغ داغ ہوئے، روزنِ سحر نہ کھلا

اسلم کولسری

No comments:

Post a Comment