Friday 11 September 2015

میں‌ جب اپنے گاؤں سے باہر نکلا تھا

میں‌ جب اپنے گاؤں سے باہر نکلا تھا
ہر رستے نے میرا "رستا" روکا تھا
مجھ کو یاد ہے جب اس گھر میں آگ لگی
اوپر سے "بادل" کا "ٹکڑا" گزرا تھا
شام ہوئی اور سورج نے اک ہچکی لی
بس پھر کیا تھا کوسوں تک سناٹا تھا
اس نے اکثر چاند چمکتی راتوں میں
میرے کندھے پر سر رکھ کر سوچا تھا
میں نے اپنے سارے آنسو بخش دئیے
بچے نے تو ایک ہی پیسا مانگا تھا
شہر میں آ کر پڑھنے والے بھول گئے
کس کی "ماں" نے کتنا "زیور" بیچا تھا
لوگوں نے جس وقت ستارے بانٹ لیے
اسلمؔ اک جگنو کے پیچھے بھاگا تھا 

اسلم کولسری

No comments:

Post a Comment