Friday 11 September 2015

بارش میں تنہا بھیگو یا بھیگو یار کے ساتھ

بارش میں تنہا بھیگو، یا بھیگو یار کے ساتھ
کتنے زخم مہک اٹھتے ہیں پہلی پھوار کے ساتھ
لہروں میں بھی گِرہ پڑتی ہے، جیسے دل میں
دریا کے سب بھید نہیں کھُلتے پتوار کے ساتھ
کچھ تو بول مسیحا! آخر کیسا روگ لگا ہے
کوئی بھلا بیمار ہوا ہے یوں بیمار کے ساتھ
وہ کیا جانیں صبح کا منظرنامہ کیا ہوتا ہے
جن کا سورج بندھا ہوا ہے بس اخبار کے ساتھ
راستے گلیوں پر ہنستے ہیں، آنکھیں ویرانی پر
کیسا منظر بدل گیا ہے اس خوش رفتار کے ساتھ
یوں بنیادوں سے مت کھیلو، ورنہ بعض اوقات
ساری عمارت گر پڑتی ہے اک دیوار کے ساتھ
پہلے تو دستار سنبھالنی مشکل تھی لوگوں کی
شاید اب کے سر بھی چلا جائے دستار کے ساتھ

سلیم کوثر

No comments:

Post a Comment