Friday 11 September 2015

جو ہم آئے تو بوتل کیوں الگ پیر مغاں رکھ دی

جو ہم آئے تو بوتل کیوں الگ پیرِ مغاں رکھ دی
پرانی دوستی بھی طاق پر اے مہرباں! رکھ دی
خدا کے ہاتھ ہے بِکنا نہ بِکنا مئے کا، اے ساقی
برابر مسجدِ جامع کے ہم نے اب دکاں رکھ دی
چمن کا لطف آتا ہے مجھے صیاد کے صدقے
قفس میں لا کے اس نے آج شاخِ آشیاں رکھ دی
بِنا ہے ایک ہی دونوں کی، کعبہ ہو کہ بُت خانہ
اٹھا کر خِشتِ خم میں نے وہاں رکھ دی، یہاں رکھ دی
یہ قیس و کوہکن کے سے فسانے بن گئے کتنے
کسی نے ٹکڑے ٹکڑے سب ہماری داستاں رکھ دی
یہ عالم ہے تو ریاضؔ ایک ایک قطرے کو ترستا ہوں
حرم میں اب بھری بوتل خدا جانے کہاں رکھ دی

ریاض خیر آبادی

No comments:

Post a Comment