Sunday 20 September 2015

بنایا حضرت زاہد کو یار مشکل سے

بنایا حضرت زاہد کو یار مشکل سے
پلائے ساغرِ مے تین چار مشکل سے
تھما ہے آج دلِ بے قرار مشکل سے
ملا ہے جبر پہ کچھ اختیار مشکل سے
ہوا ہے وصل کا قول و قرار مشکل سے
کیا ہے وعدۂ ناپائیدار مشکل سے
سنبھلنا دل کا ہے آسان، اشک پینا سہل
رکے گا نالۂ بے اختیار مشکل سے
جمالِ یار کہاں دیکھ لی تھی موسیٰؑ نے
یونہی سی ایک جھلک ایک بار مشکل سے
حیا نے روک لیا، شوخیوں نے زور دیا
نگاہِ یار ہوئی دل کے پار مشکل سے
سبھی نے دی ہے، سبھی دیں گے جان الفت میں
کوئی خوشی سے، کوئی جاں نثار مشکل سے
ستم کے بھید، جفا کے جو راز مخفی تھے
شبِ وصال ہوئے آشکار مشکل سے
ستم کے عذر پہ وہ یہ بھی کہتے جاتے ہیں
مٹے گا آپ کے دل کا غبار مشکل سے
جھکی ہوئی ہے ندامت کے بوجھ سے گردن
اٹھے گی اب نِگہِ شرمسار مشکل سے
عجیب حال تھا کل تو تمہارے بیخودؔ کا
ہوا ہے آج ذرا ہوشیار مشکل ہے

بیخود دہلوی

No comments:

Post a Comment