اس بازار میں ایک شام
چند چاندی کے سرد سِکوں میں
گرمئ حسن بک رہی ہے یہاں
اے غمِ عشق! دیکھ بھول نہیں
گرمئ حسن بک رہی ہے یہاں
اے غمِ عشق! دیکھ بھول نہیں
نغمۂ نور و کائنات سرور
کاسۂ زر میں ڈھالتی ہے شام
اور کیا اس میں دلکشی ہے، نہ پوچھ
آسماں کی حسین بلندی سے
اڑ کے آیا کثیف خاک پہ کون
اے غمِ عشق! دیکھ بھول نہیں
پھینک کر پر ترے تخیّل نے
بیڑیاں بے حسی کی پہنی ہیں
اور کیا شے قبول کی ہے، نہ پوچھ
معصیت کی یہ زہد پاش بہار
بن رہی ہے نشاطِ دیدہ و گوش
اے غمِ عشق! دیکھ بھول نہیں
تیری تہذیب کے سیاہ نقوش
انتہائے کمال کا ہیں مآل
اور کیا ذوقِ زندگی ہے، نہ پوچھ
کاسۂ زر میں ڈھالتی ہے شام
اور کیا اس میں دلکشی ہے، نہ پوچھ
آسماں کی حسین بلندی سے
اڑ کے آیا کثیف خاک پہ کون
اے غمِ عشق! دیکھ بھول نہیں
پھینک کر پر ترے تخیّل نے
بیڑیاں بے حسی کی پہنی ہیں
اور کیا شے قبول کی ہے، نہ پوچھ
معصیت کی یہ زہد پاش بہار
بن رہی ہے نشاطِ دیدہ و گوش
اے غمِ عشق! دیکھ بھول نہیں
تیری تہذیب کے سیاہ نقوش
انتہائے کمال کا ہیں مآل
اور کیا ذوقِ زندگی ہے، نہ پوچھ
قیوم نظر
No comments:
Post a Comment