Sunday 20 September 2015

محبت میں تیری ہے جینا ہی پینا

محبت میں تیری ہے جینا ہی پِینا
نہ کچھ فکرِ ساغر نہ کچھ ذکرِ مِینا
خزاں ہو گئی ہے بہارِ تمنا
عجب گل کھلائے بہار آفرینا
نگاہیں زمانے کی اس پر جمی ہیں
کِسے دیکھ بیٹھی میری چشمِ بِینا
کسی سے ہیں وابستہ میری امیدیں
یہی میرا مرنا، یہی میرا جینا
نگاہِ کرم تُو نے یہ بھی نہ چاہا
غمِ جاودانِ محبت بھی چھینا
خدا سے کریں شکوۂ ناخدا کیا
غنیمت ہے یہ بھی کہ ڈوبا سفینہ
نظر یوں بھی کرتا ہے کوئی محبت
نہ کوئی سلیقہ، نہ کوئی قرینہ

قیوم نظر

No comments:

Post a Comment