یہ جو وحشت میں غزالوں کو سکوں ہے، یوں ہے
دشت سے بڑھ کے مِرا حال زبوں ہے، یوں ہے
دیکھتے ہی اسے ہم دل سے گئے، جاں سے گئے
عشق آغاز میں انجامِ جنوں ہے، یوں ہے
تیری تصویر بنانے سے کہاں بنتی ہے
ورنہ میں اور ترے دستِ حنائی سے فرار
مری آنکھوں میں ابھی منظرِ خوں ہے، یوں ہے
یہ جو ہم حال میں اپنے نہیں رہتے اکثر
ہم پہ افسانۂ فردا کا فسوں ہے، یوں ہے
میں تو اٹھ آیا مرے شعر پہ جب بات چلی
“نکتہ چینوں میں یہی شور تھا ”یوں ہے، یوں ہے
خوش بیانی مری فطرت میں ہے شامل عاصمؔ
شاعری سے مِری وابستگی کیوں ہے، یوں ہے
لیاقت علی عاصم
No comments:
Post a Comment