کیوں مجھ سے ہے یہ مفت کی تکرار کیا ہوا
اچھا جو میں نے کر ہی لیا پیار، کیا ہوا
واعظ تِری زباں تو پکڑتے نہیں غریب
آئے جو بزمِ وعظ میں مے خوار کیا ہوا
کہتے نہ تھے رقیب ہیں سب جھوٹے مدعی
پھسلے قدم فرشتوں کے ایسی جگہ ہے یہ
دنیا میں میں ہوا جو گنہگار کیا ہوا
میں اس کے بانکپن کی اداؤں پہ مر گیا
وہ رک گیا جو کھینچ کے تلوار کیا ہوا
خوب آزما چکے انہیں اب آزمائیں کیا
سو بار وصل کا ہوا اقرار کیا ہوا
لو آج بے پلائے وہاں پھر گئے حفیظؔ
پوچھے کوئی وہ عہد وہ انکار کیا ہوا
حفیظ جونپوری
No comments:
Post a Comment