Wednesday, 4 November 2015

دل لے کے ہر بشر کا ستمگر نہ چال کر

دل لے کے ہر بشر کا ستمگر نہ چال کر
کھوٹے کھرے سبھی ہیں ذرا دیکھ بھال کر
ساقی عبث عبث ہے تجھے محتسب کا ڈر
تھوڑی سی دے بھی دے مجھے چپکے سے ڈال کر
جب حرص ابھارتی ہے تو کہتی ہے مجھ سے عار
مر جا مگر کسی سے نہ ہر گز سوال کر
اب خط میں شوقِ دید کہاں تک رقم کروں
لے جا تُو نامہ بر مری آنکھیں نکال کر
شادی سے غم کی قدر سوا چاہیے حفیظؔ
تھوڑی سی ہو خوشی تو بہت سا ملال کر

حفیظ جونپوری

No comments:

Post a Comment