سنبھل ہی لیں گے مسلسل تباہ ہوں تو سہی
عذابِ زیست میں رشکِ گناہ ہوں تو سہی
کہیں تو ساحلِ نایافت کا نشاں ہو گا
جلا کے خود کو تقاضائے آہ ہوں تو سہی
مجال کیا کہ نہ منزل ہے نہ نشانِ وفا
صدا بدست بنے گی نہ یہ لہو کی تپش
لہو کے چھینٹے مگر گاہ گاہ ہوں تو سہی
ہے رات کھولے ہوئے بالِ دِلفگار کہ اب
طلوعِ صبح کے آثار راہ ہوں تو سہی
یہ خود فریبئ احساسِ دلبری سے سراب
مقامِ حشر ہو باہم، گواہ ہوں تو سہی
کشور ناہید
No comments:
Post a Comment