خوشی بھی چھین لی محروم بھی کیا غم سے
یہ انتقام لیے کب کے آپ نے ہم سے
وہ منہ چھپاتے ہیں اب میرے اشکِ پیہم سے
پناہ مانگتا ہے آفتاب شبنم سے
قدم قدم پہ خوشی نے جو کی دغا ہم سے
چمن میں کون ہے صیاد برق جس سے ملے
چمن میں سب کی مدارت مِرے دم سے
زمانہ جان گیا حسن و عشق کی فطرت
مِری دعا سے، تمہاری نگاہِ برہم سے
شراب خانے کی تعریف ہم سے پوچھ اے شیخ
بس ایک جام پیا اور چھٹ گئے غم سے
نتیجہ تم سے محبت کا ہم نے دیکھا ہے
خدا کرے کہ محبت نہ ہو تمہیں ہم سے
جگر کا داغ چھپاؤ قمرؔ خدا کے لیے
ستارے ٹوٹتے ہیں ان کے دیدۂ نم سے
استاد قمر جلالوی
No comments:
Post a Comment