Friday, 6 November 2015

خوشی بھی چھین لی محروم بھی کیا غم سے

خوشی بھی چھین لی محروم بھی کیا غم سے
یہ انتقام لیے کب کے آپ نے ہم سے
وہ منہ چھپاتے ہیں اب میرے اشکِ پیہم سے 
پناہ مانگتا ہے آفتاب شبنم سے
قدم قدم پہ خوشی نے جو کی دغا ہم سے 
تعلقات بڑھانے پڑے تِرے غم سے
چمن میں کون ہے صیاد برق جس سے ملے
چمن میں سب کی مدارت مِرے دم سے
زمانہ جان گیا حسن و عشق کی فطرت
مِری دعا سے، تمہاری نگاہِ برہم سے
شراب خانے کی تعریف ہم سے پوچھ اے شیخ
بس ایک جام پیا اور چھٹ گئے غم سے
نتیجہ تم سے محبت کا ہم نے دیکھا ہے
خدا کرے کہ محبت نہ ہو تمہیں ہم سے
جگر کا داغ چھپاؤ قمرؔ خدا کے لیے
ستارے ٹوٹتے ہیں ان کے دیدۂ نم سے 

استاد قمر جلالوی

No comments:

Post a Comment