Friday, 6 November 2015

کرتے بھی کیا حضور نہ جب اپنے گھر ملے

کرتے بھی کیا حضور نہ جب اپنے گھر مِلے
دشمن سے ہم کبھی نہ ملے تھے، مگر مِلے
بلبل پہ ایسی برق گری آندھیوں کے ساتھ
گھر کا پتہ چلا نہ کہیں بال و پر مِلے
ان سے ہمیں نگاہِ کرم کی امید کیا
آنکھیں نکال لیں جو نظر سے نظر مِلے
وعدہ غلط، پتے بھی بتائے ہوئے غلط
تم اپنے گھر مِلے نہ رقیبوں کے گھر مِلے
افسوس ہے ہی مجھے فصلِ بہار میں
میرا چمن ہوا اور مجھی کو نہ گھر مِلے
چاروں طرف سے شمعِ محبت کی روشنی
پروانے ڈھونڈ ڈھونڈ کے لائی جدھر مِلے

استاد قمر جلالوی

No comments:

Post a Comment