ہے آج پھر دلِ دیوانہ زخمہ یابِ جنوں
کسی نے چھیڑ دیا پھر کہیں ربابِ جنوں
جنوں کے شہر میں ہے ہم سے آب و تابِ جنوں
ہمیں نصیب ہے سرمایۂ شبابِ جنوں
ہماری کشتِ تمنا نہ کیوں پھلے پھولے
یہ وہ سوال ہے جو حل طلب رہے گا سدا
خرد کے پاس نہیں ہے کوئی جوابِ جنوں
ابھی نہ چھیڑ مجھے شحنۂ خرد کچھ دیر
پلا رہی ہے کسی کی نظر شرابِ جنوں
جنوں کی راہ میں چلنا کوئی مذاق نہ تھا
خرد چلی بھی تو دو گام، ہمرکابِ جنوں
یہ تحفۂ درِ جاناں ہے تُو بھی دیکھ فلک
نشانِ سجدہ جبیں پر ہے آفتابِ جنوں
کتابِ شوق مرتب ہوئی سلیقے سے
ہمارے نام سے ہے ابتدائے بابِ جنوں
نمازِ عشق ادا کی اس اہتمام کے ساتھ
بہ فیضِ اشک کیا ہے وضو بہ آبِ جنوں
خرد اٹھا نہ سکی پھر کوئی بھی ہنگامہ
چڑھی وہ ٹوٹ کے بوئے شرابِ نابِ جنوں
تمام عمر کٹی نت نئے تماشوں میں
نصیرؔ جلوہ بجلوہ رہا خرابِ جنوں
سید نصیرالدین نصیر
No comments:
Post a Comment