کبھی ان کا نام لینا کبھی ان کی بات کرنا
مِرا ذوق ان کی چاہت مِرا شوق ان پہ مرنا
وہ کسی کی جھیل آنکھیں وہ مِری جنوں مزاجی
کبھی ڈوبنا ابھر کر، کبھی ڈوب کر ابھرنا
تِرے منچلوں کا جگ میں یہ عجب چلن رہا ہے
شبِ غم نہ پوچھ کیسے تِرے مبتلا پہ گزری
کبھی آہ بھر کے گِرنا کبھی گِر کے آہ بھرنا
وہ تِری گلی کے تیور، وہ نظر نظر پہ پہرے
وہ مِرا کسی بہانے تجھے دیکھتے گزرنا
کہاں میرے دِل کی حسرت، کہاں میری نارسائی
کہاں تیرے گیسوؤں کا، تِرے دوش پر بِکھرنا
چلے لاکھ چال دنیا ہو زمانہ لاکھ دشمن
جو تِری پناہ میں ہو اسے کیا کسی سے ڈرنا
وہ کریں گے ناخدائی تو لگے گی پار کشتی
ہے نصیرؔ ورنہ مشکل، تِرا پار یوں اترنا
سید نصیرالدین نصیر
No comments:
Post a Comment