Monday, 2 November 2015

كوئی آنسو تو نہيں ہے تری مژگاں كے قريب

كوئی آنسو تو نہيں ہے تِری مژگاں كے قريب
ايک كانٹا سا كھٹكتا ہے رگِ جاں كے قريب
میں کہیں جاؤں زمانے میں یہ محسوس کیا
ہے تِرا جلوۂ رنگیں، دلِ ویراں کے قریب
جب سے دیکھی ہیں پشیمان نگاہیں اُن کی
ہاتھ مشکل سے پہنچتے ہیں گریباں کے قریب
کہیں پھر آگ لگی یا کوئی جلوہ اُبھرا
روشنی سی ہے سوادِ شبِ ہِجراں کے قریب
مسکرا کر مِری حالت پہ توجہ نہ کرو
كھنچ كے خود رُوح نہ آئے غمِ پنہاں كے قريب
چشمِ مایوس میں آنسو ہیں، تو دل میں یادیں
ایک گُلزار بھی ہے میرے بیاباں کے قریب
آدمیت سے گریزاں رہا زاہد کا غرور
یہ فرشتہ نہیں بیٹھا کسی انساں کے قریب
جن میں محفوظ ہے قصہ میری بربادی کا
ہیں کچھ ایسے بھی مقامات گلستاں کے قریب
ہر قدم پر جو سرِ شوق جھکا جاتا ہے
شاید آ پہنچے ہیں ہم منزلِ جاناں کے قریب
آئینہ خانے کو خود اس نے ہی توڑا تھا صباؔ
عکس اس کے ہی تھے حیراں دلِ گِریاں کے قریب

صبا اکبر آبادی

No comments:

Post a Comment