دنيا سے بچ كے قبر كے چكر ميں قيد ہوں
اُس گھر سے چھٹ گيا ہوں تو اِس گھر ميں قيد ہوں
عالم کی وسعتوں میں کہیں بھی رہوں، مگر
اپنی جگہ نگاہِ ستم گر ميں قيد ہوں
دريا كی لہر كہئے تو ساحل كی قيد ہے
ہوں جرعۂ شراب تو ساغر ميں قيد ہوں
اک اک سے شکوہ سنجِ اسیری ہوں رات دن
بے زار ہیں وہ جن کے برابر ميں قيد ہوں
سمجھاؤں کیا اسیرئ بے جرم کا سبب
لکھی تھی قید میرے مقدر ميں قيد ہوں
میری مثال قبلہ نما کی ہے دہر میں
رستے بنا رہا ہوں مگر گھر ميں قيد ہوں
مجھ کو جکڑ گئیں میری بے اعتمادیاں
یعنی خیالِ رہزن و رہبر ميں قيد ہوں
اپنے ہجومِ حسرت و ارماں گھِر گیا
جاؤں کہاں کہ اپنے ہی لشکر ميں قيد ہوں
کیسے تعلقات کی زنجیر توڑ دوں
میں سفینہ ہوں کہ جو لنگر ميں قيد ہوں
دنیا نے ڈال رکھے ہیں اب تک حسِین جال
میں خاک ہو کے پھولوں کی چادر ميں قيد ہوں
ميرے لیے صباؔ مِرے زنداں كی حد نہيں
آزاد ہو كے ميں تو جہاں بھر ميں قيد ہوں
اُس گھر سے چھٹ گيا ہوں تو اِس گھر ميں قيد ہوں
عالم کی وسعتوں میں کہیں بھی رہوں، مگر
اپنی جگہ نگاہِ ستم گر ميں قيد ہوں
دريا كی لہر كہئے تو ساحل كی قيد ہے
ہوں جرعۂ شراب تو ساغر ميں قيد ہوں
اک اک سے شکوہ سنجِ اسیری ہوں رات دن
بے زار ہیں وہ جن کے برابر ميں قيد ہوں
سمجھاؤں کیا اسیرئ بے جرم کا سبب
لکھی تھی قید میرے مقدر ميں قيد ہوں
میری مثال قبلہ نما کی ہے دہر میں
رستے بنا رہا ہوں مگر گھر ميں قيد ہوں
مجھ کو جکڑ گئیں میری بے اعتمادیاں
یعنی خیالِ رہزن و رہبر ميں قيد ہوں
اپنے ہجومِ حسرت و ارماں گھِر گیا
جاؤں کہاں کہ اپنے ہی لشکر ميں قيد ہوں
کیسے تعلقات کی زنجیر توڑ دوں
میں سفینہ ہوں کہ جو لنگر ميں قيد ہوں
دنیا نے ڈال رکھے ہیں اب تک حسِین جال
میں خاک ہو کے پھولوں کی چادر ميں قيد ہوں
ميرے لیے صباؔ مِرے زنداں كی حد نہيں
آزاد ہو كے ميں تو جہاں بھر ميں قيد ہوں
صبا اکبر آبادی
No comments:
Post a Comment