Wednesday, 4 November 2015

تڑپنے کا یہ موسم ہے نہ تڑپانے کا موسم ہے

تڑپنے کا یہ موسم ہے نہ تڑپانے کا موسم ہے
یہ موسم تو محبت کر کے پچھتانے کا موسم ہے
نظر آتے ہیں کچھ بدلے ہوئے چہرے حسینوں کے
یقیناً یہ وفاؤں کی سزا پانے کا موسم ہے
لگاؤ مِصر کا بازار، بلواؤ زلیخا کو
یہی تو یوسفِؑ کنعاں کے بِک جانے کا موسم ہے
کسی نے کر دیا ہے منع اظہارِ انا سے بھی
یہ غیرت مند انسانوں کے مر جانے کا موسم ہے
پرانی بیڑیاں اب اس لیے توڑو کہ زنداں میں 
اسیروں کو نئی زنجیر پہنانے کا موسم ہے
مقید کر دیا سانپوں کو یہ کہہ کر سپیروں نے
یہ انسانوں کو انسانوں سے ڈسوانے کا موسم ہے
سروں کی فصل کٹتی ہے تو اگ آتی ہیں دستاریں 
خدا جانے یہ کس موسم کو دہرانے کا موسم ہے
گھٹا چھائی تو آ جائیں گے پیمانے بھی گردش میں 
ابھی تو صرف خالی جام کھنکانے کا موسم ہے
قتیلؔ اس بار اپنے شعر پر تکیہ نہ کر بھائی
غزل کا یہ نہیں موسم یہ افسانے کا موسم ہے

قتیل شفائی

No comments:

Post a Comment