تڑپنے کا یہ موسم ہے نہ تڑپانے کا موسم ہے
یہ موسم تو محبت کر کے پچھتانے کا موسم ہے
نظر آتے ہیں کچھ بدلے ہوئے چہرے حسینوں کے
یقیناً یہ وفاؤں کی سزا پانے کا موسم ہے
لگاؤ مِصر کا بازار، بلواؤ زلیخا کو
کسی نے کر دیا ہے منع اظہارِ انا سے بھی
یہ غیرت مند انسانوں کے مر جانے کا موسم ہے
پرانی بیڑیاں اب اس لیے توڑو کہ زنداں میں
اسیروں کو نئی زنجیر پہنانے کا موسم ہے
مقید کر دیا سانپوں کو یہ کہہ کر سپیروں نے
یہ انسانوں کو انسانوں سے ڈسوانے کا موسم ہے
سروں کی فصل کٹتی ہے تو اگ آتی ہیں دستاریں
خدا جانے یہ کس موسم کو دہرانے کا موسم ہے
گھٹا چھائی تو آ جائیں گے پیمانے بھی گردش میں
ابھی تو صرف خالی جام کھنکانے کا موسم ہے
قتیلؔ اس بار اپنے شعر پر تکیہ نہ کر بھائی
غزل کا یہ نہیں موسم یہ افسانے کا موسم ہے
قتیل شفائی
No comments:
Post a Comment