Wednesday, 4 November 2015

کیا جرم کیا ہے جو اندھیرے میں پڑا ہے

کیا جرم کِیا ہے جو اندھیرے میں پڑا ہے
کہتے ہیں کوئی دِیپ ہواؤں سے لڑا ہے
کچھ لوگوں سے جب میری ملاقات نہیں تھی
میں بھی یہ سمجھتا تھا خدا سب سے بڑا ہے
پنچھی تِری پرواز ہے کچھ روز سے بوجھل
کیا تیرے پروں میں کوئی موتی بھی جڑا ہے
اے شیخ! نہ بن جائے کہیں بوجھ یہ تجھ پر
جو تیرا عصا ہے وہ تِرے قد سے بڑا ہے
ہوتا رہا شاہوں کا حنوط اس لیے اب تک
فرعون کا لاشہ نہ گَلا ہے نہ سڑا ہے
بن سکتا نہیں چاند کسی کا بھی کھلونا
بچہ مِرے اندر کا مگر ضد پہ اڑا ہے
جذبات ہیں سچے تِرے اے سوہنی، لیکن
کچا تِرے گجرات کی مٹی کا گھڑا ہے
خود موت چراتی ہے قتیلؔ اس سے نگاہیں
دیوانہ تو کب سے درِ قاقل پہ کھڑا ہے

قتیل شفائی

No comments:

Post a Comment