ناداں تھے وہ شباب نے ہُشیار کر دیا
فِتنے کو خوابِ ناز سے بیدار کر دیا
نرگس کو بھی فراق میں رونا اسی کا ہے
آنکھوں کو انتظار نے بیمار کر دیا
صورت تو ابتدا سے تِری لاجواب تھی
ناز و ادا نے اور طرحدار کر دیا
جینے کی تو امید کہاں تھی فراق میں
مرنا بھی انتظار نے دشوار کر دیا
اچھے تم آئے دیکھنے اپنے مریض کو
آنکھیں دِکھا کے اور بھی بیمار کر دیا
بُوٹا سا قد ہے، پھول سا رُخ، غُنچہ سا دہن
جس گھر میں وہ گئے اسے گُلزار کر دیا
پیارا مجھے ہو کوئی، گوارا نہیں انہیں
یاں تک کہ اپنی جان سے بے زار کر دیا
مشتاق تو کیا تھا تِرے حسن نے مگر
پردے نے اور طالبِ دیدار کر دیا
ہم سے جلیلؔ فکر سخن خاک ہو سکے
غم نے دل و دماغ کو بے کار کر دیا
فِتنے کو خوابِ ناز سے بیدار کر دیا
نرگس کو بھی فراق میں رونا اسی کا ہے
آنکھوں کو انتظار نے بیمار کر دیا
صورت تو ابتدا سے تِری لاجواب تھی
ناز و ادا نے اور طرحدار کر دیا
جینے کی تو امید کہاں تھی فراق میں
مرنا بھی انتظار نے دشوار کر دیا
اچھے تم آئے دیکھنے اپنے مریض کو
آنکھیں دِکھا کے اور بھی بیمار کر دیا
بُوٹا سا قد ہے، پھول سا رُخ، غُنچہ سا دہن
جس گھر میں وہ گئے اسے گُلزار کر دیا
پیارا مجھے ہو کوئی، گوارا نہیں انہیں
یاں تک کہ اپنی جان سے بے زار کر دیا
مشتاق تو کیا تھا تِرے حسن نے مگر
پردے نے اور طالبِ دیدار کر دیا
ہم سے جلیلؔ فکر سخن خاک ہو سکے
غم نے دل و دماغ کو بے کار کر دیا
جلیل مانکپوری
No comments:
Post a Comment