Sunday, 1 November 2015

عشق میں رنگیں جوانی ہو گئی

عشق میں رنگیں جوانی ہو گئی
زندگانی زندگانی ہو گئی
تم جو یاد آئے تو ساری کائنات
ایک بھُولی سی کہانی ہو گئی
موت سمجھا تھا میں الفت کو مگر
وہ حیاتِ جاودانی ہو گئی
خونفشاں تھے سب مِرے زخمِ جگر
ہنس پڑے تم، گلفشانی ہو گئی
ان کی آنکھیں دیکھ کر اپنی نظر
کاشفِ رازِ نہانی ہو گئی
چلتے چلتے ان کی تیغِِ آبدار
موجِ آبِ زندگانی ہو گئی
پھر ہے دل سرگرمِ نالہ شام سے
رات پھر اپنی سہانی ہو گئی
خامشی سے کھِل گئے اسرارِ حق
سو زباں اِک بے زبانی ہو گئی
ہم نے جس دنیا کو دیکھا تھا جلیل
آج وہ قصہ کہانی ہو گئی

جلیل مانکپوری

No comments:

Post a Comment