Friday, 22 January 2016

یوں خالی ہاتھ میں ترے در سے گزر گیا

یوں خالی ہاتھ میں تِرے در سے گزر گیا
جیسے بھرے جہاں سے سکندر گزر گیا
کس کا گناہگار ہے ۔۔۔ یہ باثمر شجر
جو شخص آیا، مار کے پتھر گزر گیا
کیسے نظر میں ڈھونڈ کے لائے تھے اک ہلال
کیا وہ پلک جھپکتے ہی منظر گزر گیا
یوں بڑھ گئے قزاق مسافر کو لوٹ کر
یوں باغ سے بہار کا لشکر گزر گیا
دل کو تو ہاتھ تک نہ لگایا مسیح نے
دیوار و در پہ کر کے پلستر گزر گیا
شاہدؔ میں اس کو دیکھنے پایا ہی تھا کہ، بس
وہ خود کو میری آنکھ میں رکھ کر گزر گیا

شاہد کبیر 

No comments:

Post a Comment