Monday 18 January 2016

کیا ارادہ تجھے بارہا بھلانے کا

کِیا ارادہ تجھے بارہا ۔۔ بھلانے کا
ملا نہ عذر ہی کوئی مگر ٹھکانے کا
یہ کیسی اجنبی دستک تھی کیسی آہٹ تھی
تِرے سوا تھا کسے حق مجھے جگانے کا
یہ آنکھ ہے کہ نہیں دیکھا کچھ سوا تیرے
یہ دل عجب ہے کہ غم ہے اسے زمانے کا
وہ دیکھ لو، وہ سمندر خشک ہونے لگا
جسے تھا دعویٰ میری پیاس کو بجھانے کا
زمیں پہ کس لیے زنجیر ہو گئے سائے
مجھے پتہ ہے، مگر میں نہیں بتانے کا

شہریار خان

No comments:

Post a Comment