لو آج کی شب بھی سو چکے ہم
شامِ جدائی پھر لوٹ آئی سوئے ہوئے فتنوں کو جگایا
اک بے نام کسک کے ہاتھوں، بات بات پہ دل بھر آیا
آج بھی شاید ساتھ تمہارا منزل تک دینا ہے ستارو
پہلے بھی ہم نے اکثر تم کو صبح کی وادی تک پہنچایا
آنکھ مچولی کھیلا کریں گے کب تک یہ راتوں کے دھندلکے
انشاؔ جی پھر اتنی سویرے صبر کا دامن چھوڑ رہے ہو
پچھلی رات کا درد ابھی تک سینے سے مٹنے نہیں پایا
ابن انشا
No comments:
Post a Comment