ہزاروں فریاد کر رہے ہیں مگر کسی پر نظر نہیں ہے
وہ محو ہیں آئینے میں ایسے کہ ان کو اپنی خبر نہیں ہے
مریضِ فرقت کا ہے یہ عالم کہ شام سے کچھ خبر نہیں ہے
وہ دیکھنے آئیں گے سحر کو ۔۔۔ یہاں امیدِ سحر نہیں ہے
خوشی تو یہ ہے جواب آیا مآل پیشِ نظر نہیں ہے
دوا سے بیمارِ غم کو صحت کہیں ہوئی کبھی سنا ہے
یہ آخری وقت ہے دعا کا ضرورتِ چارہ گر نہیں ہے
تجلیوں کی یہ انتہا ہے کہ دیکھنے والے دم بخود ہیں
ہر اک کی آنکھوں کے سامنے ہے مگر مجالِ نظر نہیں ہے
'سرہانے میت کے کہہ رہے ہیں 'کہا سنا تم معاف کر دو
وہ دل میں شاید سمجھ گئے ہیں یہ واپسی کا سفر نہیں ہے
تم آ کے سینے پہ ہاتھ رکھ دو، مسیحا کہنے لگے گی دنیا
طبیب یہ کہہ کے جا رہے ہیں دوائے دردِ جگر نہیں ہے
چھپا کر داغِ جگر کو میں نے فضول ان سے ضدیں بڑھا لیں
میں کہہ رہا ہوں قمرؔ ہوں میں ہی، وہ کہہ رہے ہیں قمر نہیں ہے
استاد قمر جلالوی
No comments:
Post a Comment