یہ راز بہارِ گلشن ہے اس راز کو کیا سمجھے کوئی
شبنم کو رلایا پھولوں نے یا رات کو شبنم خود روئی
ہم تنگ ہیں اپنے جینے سے کرتا نہیں کوئی دل جوئی
ایسے میں وہ برہم بیٹھے ہیں ۔۔ تلوار اٹھا لانا کوئی
برسوں گزرے روتے روتے اک مدت میں نیند آئی ہے
محشر میں ثبوتِ قتل سے اب شرمانے سے کیا ہوتا ہے
جب خون کے چھینٹے باقی تھے تلوار نہ تم نے کیوں دھوئی
سب منہ دیکھے کی الفت تھی یہ حال کھلا مرنے پہ قمرؔ
جب دفن ہوئے تو تربت پر دو پھول نہیں لاتا کوئی
استاد قمر جلالوی
No comments:
Post a Comment