جو مرض کوئی ہو دوا کرے، جو بلا کوئی ہو دعا کرے
جو دوا دعا میں اثر نہ ہو۔۔ تو بتائیے کہ وہ کیا کرے
چلے آئے موج میں اس طرف، کہ فقیرِ طالبِ دید تھے
نہیں رحم کرتے جو اے بتو! تو خدا تمہارے بھلا کرے
یہ کہ ستم نیا ہے کہ ذکر تک ستم و جفا کا ہے جاں گسل
نہیں یاد قصہ طور کا کیا کہ کلیم کا تھا قصور کیا
نہیں مانتا دلِ بے حیا، کہو کاش اب تو حیا کرے
وہ تغافل اس کا مِٹے کہیں مِری جان جاتی ہے دوستو
کہو ہاتھ جوڑ کے یار سے کہ بلا سے خوب جفا کرے
ملے یار شادؔ کو گر کہیں تو یہ چاہتا ہے کہ دردِ دل
وہ کہا کرے یہ سنا کرے، یہ کہا کرے وہ سنا کرے
شاد عظیم آبادی
No comments:
Post a Comment