Thursday 21 January 2016

زمیں کے لوگ ستارے ادھار مانگتے ہیں

زمیں کے لوگ ستارے ادھار مانگتے ہیں
خدا سے اس کے سہارے ادھار مانگتے ہیں
یہ کیسی بستی میں ہم نے دکان کھولی ہے
یہاں تو سارے کے سارے ادھارمانگ تے ہیں
یہ اپنی عمر سے آگے نکل گئے کیسے
غریب بچے غبارے ادھار مانگتے ہیں
چلو، کہ ختم کریں زندگی کی بے کیفی
چلو کسی سے نظارے ادھار مانگتے ہیں
ہمارے ہاتھ میں پرچم کسی کا ہوتا ہے
اور اس پہ ظلم کے نعرے ادھار مانگتے ہیں
جب ان کے پاس کوئی لفظ بھی نہیں رہتا
مِری نظر کے اشارے ادھار مانگتے ہیں
نہیں ہے آگ بھی اپنی کہ جل مریں ناصرؔ
چلو کسی سے شرارے ادھار مانگتے ہیں

ناصر کاظمی

No comments:

Post a Comment