زمیں کے لوگ ستارے ادھار مانگتے ہیں
خدا سے اس کے سہارے ادھار مانگتے ہیں
یہ کیسی بستی میں ہم نے دکان کھولی ہے
یہاں تو سارے کے سارے ادھارمانگ تے ہیں
یہ اپنی عمر سے آگے نکل گئے کیسے
چلو، کہ ختم کریں زندگی کی بے کیفی
چلو کسی سے نظارے ادھار مانگتے ہیں
ہمارے ہاتھ میں پرچم کسی کا ہوتا ہے
اور اس پہ ظلم کے نعرے ادھار مانگتے ہیں
جب ان کے پاس کوئی لفظ بھی نہیں رہتا
مِری نظر کے اشارے ادھار مانگتے ہیں
نہیں ہے آگ بھی اپنی کہ جل مریں ناصرؔ
چلو کسی سے شرارے ادھار مانگتے ہیں
ناصر کاظمی
No comments:
Post a Comment