یہ رنگِ خوں ہے گلوں پر نکھار اگر ہے بھی
حنائے پائے خزاں ہے ۔۔ بہار اگر ہے بھی
یہ پیش خیمۂ بیدادِ تازہ ہو نہ کہیں
بدل رہی ہے ہوا سازگار اگر ہے بھی
لہو کی شمیں جلاؤ ۔۔ قدم بڑھاتے چلو
ابھی تو گرم ہے مے خانہ ۔۔ جام کھنکاؤ
بلا سے سر پہ کسی کا ادھار اگر ہے بھی
حیاتِ درد کو آلودۂ نشاط نہ کر
یہ کاروبار کوئی کاروبار اگر ہے بھی
یہ امتیاز من و تو خدا کے بندوں سے
وہ آدمی نہیں طاعت گزار اگر ہے بھی
نہ پوچھ کیسی گزرتی ہے زندگی ناصرؔ
بس ایک جبر ہے یہ اختیار اگر ہے بھی
ناصر کاظمی
No comments:
Post a Comment