Thursday 21 January 2016

شعاع حسن ترے حسن کو چھپاتی تھی

شعاعِ حسن تِرے حسن کو چھپاتی تھی
وہ روشنی تھی کہ صورت نظر نہ آتی تھی
کسے ملیں، کہاں جائیں کہ رات کالی ہے
وہ شکل ہی نہ رہی، جو دِیے جلاتی تھی
وہ دن تو تھے ہی حقیقت میں عمر کا حاصل
خوشا وہ دن، کہ ہمیں روز موت آتی تھی
ذرا سی بات سہی ۔۔ تیرا یاد آ جانا 
ذرا سی بات بہت دیر تک رلاتی تھی
اداس بیٹھے ہو کیوں ہاتھ توڑ کر ناصرؔ
وہ نَے کہاں ہے جو تاروں کی نیند اڑاتی تھی
ناصر کاظمی​

No comments:

Post a Comment