کس پہ قابو جو تجھی پر نہیں قابو اپنا
کس سے امید ہمیں جب نہ ہُوا تُو اپنا
جامِ مے دیکھ کے جاتا رہا قابو اپنا
لڑکھڑا تا ہوں پکڑے کوئی بازو اپنا
نگہتِ گل بہت اِترائی ہوئی پھِرتی ہے
اس نے پھر کر بھی نہ دیکھا کہ یہ ہے کون بلا
ہم کو تھا زعم ۔۔ کہ چل جائے گا جادو اپنا
جس پہ تکیہ تھا وہی چیز نہیں مدت سے
ہم دکھا دیں گے کبھی چیر کے پہلو اپنا
فصلِ گل آئی ہے صیاد قفس کھول بھی دے
کام دے گا یہی ٹوٹا ہوا بازو اپنا
غم نہیں جامِ طلاکار اٹھا رکھ ساقی
کیا غرض اس سے سلامت رہے بازو اپنا
چوکڑی بھول کے منہ تکتے ہیں مجھ وحشی کا
سر رگڑتے ہیں انہیں قدموں پہ آہو اپنا
وہم و ادراک و خیالات و دل و خواہشِ دل
سب تو اپنے ہیں ۔۔ مگر کیوں نہیں قابو اپنا
کون اے طولِ شبِ غم تِرا جھگڑا رکھے
آج قصہ ہی کیے دیتے ہیں یک سُو اپنا
نکہتِ خلدِ بریں پھیل گئی کوسوں تک
وہ نہا کر جو سُکھانے لگے گیسو اپنا
للہ الحمد کدورت نہیں دن بھر رہتی
منہ بھلا دیتا ہے ہر صبح کو آنسو اپنا
غم میں پروانۂ مرحوم کے تھمتے نہیں اشک
شمع، اے شمع! ذرا دیکھ تو منہ تُو اپنا
شادؔ سمجھاتے ہیں کیوں غیر، لِیا کیا ان کا
چشمِ تراپنی ہے ۔۔ دل اپنا ہے ۔۔ آنسو اپنا
شاد عظیم آبادی
No comments:
Post a Comment