Thursday 21 January 2016

تمناؤں میں الجھایا گیا ہوں

تمناؤں میں الجھایا گیا ہوں
کھلونے دے کے بہلایا گیا ہوں
ہوں اس کوچہ کے ہر ذرہ سے آگاہ
ادھر سے مدتوں آیا گیا ہوں
نہیں اٹھتے قدم کیوں جانبِ دَیر
کسی مسجد میں بہکایا گیا ہوں
سویرا ہے بہت اے شورِ محشر
ابھی بے کار اٹھوایا گیا ہوں
منایا آ کے پہروں آرزو نے
جو دم بھر آپ میں پایا گیا ہوں
نہ تھا میں معتقد اعجازی کا
بڑی مشکل سے منوایا گیا ہوں
کجا میں اور کجا اے شادؔ دنیا
کہاں سے کس جگہ لایا گیا ہوں

شاد عظیم آبادی

No comments:

Post a Comment