تمناؤں میں الجھایا گیا ہوں
کھلونے دے کے بہلایا گیا ہوں
ہوں اس کوچہ کے ہر ذرہ سے آگاہ
ادھر سے مدتوں آیا گیا ہوں
نہیں اٹھتے قدم کیوں جانبِ دَیر
سویرا ہے بہت اے شورِ محشر
ابھی بے کار اٹھوایا گیا ہوں
منایا آ کے پہروں آرزو نے
جو دم بھر آپ میں پایا گیا ہوں
نہ تھا میں معتقد اعجازی کا
بڑی مشکل سے منوایا گیا ہوں
کجا میں اور کجا اے شادؔ دنیا
کہاں سے کس جگہ لایا گیا ہوں
شاد عظیم آبادی
No comments:
Post a Comment