Wednesday, 20 January 2016

یہ میخانہ ہے بزم جم نہیں ہے

یہ مے خانہ ہے بزمِ جم نہیں ہے
یہاں کوئی کسی سے کم نہیں ہے
شکستِ دل شکستِ غم نہیں ہے
مجھے اتنا سہارا کم نہیں ہے
ذرا سا دل ہے لیکن کم نہیں ہے
اس میں کون سا عالم نہیں ہے
نہ جا شانِ تغافل پر کہ اے دوست
مقامِ التجا بھی کم نہیں ہے
تو پھر کیا ہے اگر یہ حسن فطرت
مآلِ لغزشِ آدم نہیں ہے
کہاں کا حسن اگر اٹھ جائے پردہ
حقیقت کیا، اگر مبہم نہیں ہے
ارے او شکوہ سنجِ عمرِ فانی
یہ فانی زندگی بھی کم نہیں ہے
کہیں ایثارِ غم جاتا ہے ضائع
چمن شاداب ہے، شبنم نہیں ہے

جگر مراد آبادی

No comments:

Post a Comment