آنکھوں کا تھا قصور نہ دل کا قصور تھا
آیا جو میرے سامنے میرا غرور تھا
تاریک مثلِ آہ جو آنکھوں کا نور تھا
کیا صبح ہی سے شامِ بلا کا ظہور تھا
وہ تھے نہ مجھ سے دور نہ میں ان سے دور تھا
ہر وقت اک خمار تھا ہر دم سرور تھا
بوتل بغل میں تھی کہ دل ناصبور تھا
کوئی تو درد مند دلِ ناصبور تھا
مانا کہ تم نہ تھے کوئی تم سا ضرور تھا
لگتے ہی ٹھیس ٹوٹ گیا سازِ آرزو
ملتے ہی آنکھ شیشۂ دل چور چور تھا
ایسا کہاں بہار میں رنگینیوں کا جوش
شامل کسی کا خونِ تمنا ضرور تھا
ساقی کی چشمِ مست کا کیا کیجیے بیان
اتنا سرور تھا کہ مجھے بھی سرور تھا
پلٹی جو راستے ہی سے، اے آہِ نامراد
یہ تو بتا کہ بابِ اثر کتنی دور تھا
اس چشمِ مے فروش سے کوئی نہ بچ سکا
سب کو بقدرِ حوصلۂ دل سرور تھا
دیکھا تھا کل جگرؔ کو سرَ راہِ مے کدہ
اس درجہ پی گیا تھا کہ نشے میں چور تھا
جگر مراد آبادی
No comments:
Post a Comment