امتحاں ہم نے دئیے اس دارِ فانی میں بہت
رنج کھینچے ہم نے اپنی لامکانی میں بہت
وہ نہیں اس سا تو ہے خوابِ بہارِ جاوداں
اصل کی خوشبو اڑی ہے اس کے ثانی میں بہت
رات دن کے آنے جانے میں یہ سونا جاگنا
کوئلیں کوکیں بہت دیوارِ گلشن کی طرف
چاند دمکا حوض کے شفاف پانی میں بہت
اس کو کیا یادیں تھیں کیا اور کس جگہ پر رہ گئیں
تیز ہے دریائے دل اپنی روانی میں بہت
آج اس محفل میں تجھ کو بولتے دیکھا منیرؔ
تُو کہ جو مشہور تھا یوں بے زبانی میں بہت
منیر نیازی
No comments:
Post a Comment