Saturday, 5 March 2016

آنسو جلائے تیرگی شام کے لئے

آنسو جلائے تیرگئ شام کے لیے
رکھے تھے یہ چراغ اسی کام کے لیے
ملنے سے پیشتر ہی بچھڑتے ہو کس طرح
آغاز تو کرو کسی انجام کے لیے
بہتان بعد میں، مجھے مل تو سہی کبھی
بنیاد تو بنا کوئی الزام کے لیے
وہ چاند اور اس سے ملاقات دن کے وقت
یہ روشنی سنبھال کسی شام کے لیے
اک سرخ دائرہ سا لبوں کا تھا جام پر
اٹھے تمام ہاتھ اسی جام کے لیے
یہ کہہ کے اس نے صاف ہی انکار کر دیا
یہ خاص دل نہیں ہے کسی عام کے لیے
سینہ ہے، کوئی مقبرۂ آہ و غم نہیں
اس میں جگہ نہیں دلِ ناکام کے لیے
تجھ سے ہے زندگی کے شب و روز کا وجود
سورج ہے جیسے گردشِ ایام کے لیے
وہ بے وفائی ہو، کہ ستم ہو، کہ قہر ہو
اچھا ہے وہ بہت ہی برے کام کے لیے
شاعر ہی کوئی لائے تو لائے خیالِ خاص
اب تو نبی نہ آئیں گے الہام کے لیے
کتنے سلام، کتنے پیام آ گئے عدیمؔ
بیٹھا ہوا تھا میں تِرے پیغام کے لیے​

عدیم ہاشمی

No comments:

Post a Comment