آنسو جلائے تیرگئ شام کے لیے
رکھے تھے یہ چراغ اسی کام کے لیے
ملنے سے پیشتر ہی بچھڑتے ہو کس طرح
آغاز تو کرو کسی انجام کے لیے
بہتان بعد میں، مجھے مل تو سہی کبھی
وہ چاند اور اس سے ملاقات دن کے وقت
یہ روشنی سنبھال کسی شام کے لیے
اک سرخ دائرہ سا لبوں کا تھا جام پر
اٹھے تمام ہاتھ اسی جام کے لیے
یہ کہہ کے اس نے صاف ہی انکار کر دیا
یہ خاص دل نہیں ہے کسی عام کے لیے
سینہ ہے، کوئی مقبرۂ آہ و غم نہیں
اس میں جگہ نہیں دلِ ناکام کے لیے
تجھ سے ہے زندگی کے شب و روز کا وجود
سورج ہے جیسے گردشِ ایام کے لیے
وہ بے وفائی ہو، کہ ستم ہو، کہ قہر ہو
اچھا ہے وہ بہت ہی برے کام کے لیے
شاعر ہی کوئی لائے تو لائے خیالِ خاص
اب تو نبی نہ آئیں گے الہام کے لیے
کتنے سلام، کتنے پیام آ گئے عدیمؔ
بیٹھا ہوا تھا میں تِرے پیغام کے لیے
عدیم ہاشمی
No comments:
Post a Comment