Saturday, 5 March 2016

یہ جہاں ہے ایک عالم ایک عالم اور ہے​

یہ جہاں ہے ایک عالم، ایک عالم اور ہے​
اک شبِ غم کاٹ لی ہے، اک شبِ غم اور ہے​
تم فقط دوزخ چشیدہ ہو، نہیں سمجھو گے تم​
اور ہے نارِ حسد،۔۔۔ نارِ جہنم اور ہے​
ایک سیپی آسماں تو دو صدف آنکھیں بھی ہیں​
ہے گہر بار اور شبنم،۔۔ آنکھ پُر نم اور ہے​
اور ہیں موتی، گِرا کر پھر اٹھا سکتے ہو تم​
باغ میں وقتِ سحر پھولوں پہ شبنم اور ہے​
بال کھولے اس نے جیسے بحرِ اسود کھُل گیا​
ایک خم کی لہر سے نکلوں تو اک خم اور ہے​
بحر کا طوفاں الگ ہے، برہمی اس کی الگ​
لہر کا خم اور،۔ اس کی زلف کا خم اور ہے​
کچھ دریچے پر بھی بارش کی بہت بوندیں پڑیں​
آج تیری یاد میں کچھ آنکھ بھی نم اور ہے​
کچھ چھپا رکھا ہے چہرہ اس نے بالوں میں عدیم​ؔ
کچھ دِیئے کی لَو ذرا سی آج مدھم اور ہے​
آج اس کی سمت دیکھا ہی نہیں جاتا عدیم​ؔ
آج کیفیت الگ ہے،۔۔۔ آج عالم اور ہے​

عدیم ہاشمی

No comments:

Post a Comment