Tuesday, 18 October 2016

یہ تجھ سے آشنا دنیا سے بیگانے کہاں جاتے

 یہ تجھ سے آشنا دنیا سے بے گانے کہاں جاتے

تیرے کوچے سے اٹھتے بھی تو دیوانے کہاں جاتے

قفس میں بھی مجھے صیاد کے ہاتھوں سے ملتے ہیں

میری تقدیر کے لکھے ہوۓ دانے کہاں جاتے

نہ چھوڑا ضبط نے دامن نہیں تو تیرے سودائی

ہجومِ غم سے گھبرا کر خدا جانے کہاں جاتے

میں اپنے آنسوؤں کو کیسے دامن میں چھپا لیتا

جو پلکوں تک چلے آئے وہ افسانے کہاں جاتے

تمہارے نام سے منسوب ہو جاتے ہیں دیوانے

وہ اپنے ہوش میں ہوتے تو پہچانے کہاں جاتے

اگر کوئی حریم ناز کے پردے اٹھا دیتا

تو پھر کعبہ کہاں رہتا صنم خانے کہاں جاتے

نہیں تھا مستحق مخمورؔ رِندوں کے سوا کوئی

نہ ہوتے ہم تو پھر لبریز پیمانے کہاں جاتے


مخمور دہلوی

No comments:

Post a Comment