یہ تجھ سے آشنا دنیا سے بے گانے کہاں جاتے
تیرے کوچے سے اٹھتے بھی تو دیوانے کہاں جاتے
قفس میں بھی مجھے صیاد کے ہاتھوں سے ملتے ہیں
میری تقدیر کے لکھے ہوۓ دانے کہاں جاتے
نہ چھوڑا ضبط نے دامن نہیں تو تیرے سودائی
ہجومِ غم سے گھبرا کر خدا جانے کہاں جاتے
میں اپنے آنسوؤں کو کیسے دامن میں چھپا لیتا
جو پلکوں تک چلے آئے وہ افسانے کہاں جاتے
تمہارے نام سے منسوب ہو جاتے ہیں دیوانے
وہ اپنے ہوش میں ہوتے تو پہچانے کہاں جاتے
اگر کوئی حریم ناز کے پردے اٹھا دیتا
تو پھر کعبہ کہاں رہتا صنم خانے کہاں جاتے
نہیں تھا مستحق مخمورؔ رِندوں کے سوا کوئی
نہ ہوتے ہم تو پھر لبریز پیمانے کہاں جاتے
مخمور دہلوی
No comments:
Post a Comment