تِیرہ بختی کو کسی طرح چھپایا نہ گیا
دو قدم چھوڑ کے مجھ کو مِرا سایا نہ گیا
تیرے آگے سرِ تسلیم جھکایا نہ گیا
تِرے ہوتے بھی خدا تجھ کو بنایا نہ گیا
الله، الله، مِرے دل میں سمانے والے
وسعتِ کون و مکاں میں بھی سمایا نہ گیا
کاش، کچھ اور مِری عمر وفا کر جاتی
ان کو حسرت ہے کہ جی بھر کے ستایا نہ گیا
شوق سے بارِ غمِ عشق اٹھایا میں نے
یہ تِرا ناز نہیں ہے، کہ اٹھایا نہ گیا
شکر صد شکر کہ مشکل کوئی اٹکی نہ رہی
غم بھی اتنا دیا قسمت نے کہ کھایا نہ گیا
مخمور دہلوی
No comments:
Post a Comment