دوئی کا تذکرہ توحید میں پایا نہیں جاتا
جہاں میری رسائی ہے مِرا سایا نہیں جاتا
کسی سے میری منزل کا پتہ پایا نہیں جاتا
جہاں میں ہوں فرشتوں سے وہاں جایا نہیں جاتا
مِرے ٹوٹے ہوئے پائے طلب کا مجھ پہ احساں ہے
تمہارے در سے اٹھ کر اب کہیں جایا نہیں جاتا
ہر اک داغِ تمنا کو کلیجے سے لگاتا ہوں
کہ گھر آئی ہوئی دولت کو ٹھکرایا نہیں جاتا
محبت ہو تو جاتی ہے محبت کی نہیں جاتی
یہ شعلہ خود بھڑک اٹھتا ہے بھڑکایا نہیں جاتا
فقیری میں بھی مجھ کو مانگنے سے شرم آتی ہے
سوالی ہو کے مجھ سے ہاتھ پھیلایا نہیں جاتا
چمن تم سے عبارت ہے، بہاریں تم سے زندہ ہیں
تمہارے سامنے پھولوں سے مرجھایا نہیں جاتا
محبت کیلئے کچھ خاص دل مخصوص ہوتے ہیں
یہ وہ نغمہ ہے جو ہر ساز پر گایا نہیں جاتا
محبت اصل میں مخمورؔ وہ راز حقیقت ہے
سمجھ میں آ گیا ہے پر سمجھایا نہیں جاتا
مخمور دہلوی
No comments:
Post a Comment